رِزْق میں بَرَکت کا وظیفہ

ایک صحابی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ )خدمتِ اقدس (صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم)میں حاضر ہوئے اور عرض کی دنیانے مجھ سے پیٹھ پھیرلی ۔ فرمایا کیا وہ تسبیح تمہیں یا دنہیں جو تسبیح ہے ملائکہ کی اور جس کی برکت سے روزی دی جاتی ہے ۔خلقِ دنیا آئے گی تیرے پاس ذلیل وخوارہو کر، طلوعِ فجر کے ساتھ سوبار کہا کر '' سُبْحٰنَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ سَبْحٰنَ اللہِ الْعَظِیْم وَبِحَمْدِہٖ اَسْتَغْفِرُ اللہ''       (لسان المیزان،حرف العین، الحدیث ۵۱۰۰،ج۴،ص۳۰۴ )

    اُن صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سات دن گزرے تھے کہ خدمتِ اقدس میں حاضر ہوکر عرض کی :''حضور! دنیا میرے پاس اس کثرت سے آئی، میں حیران ہوں کہاں اٹھاؤں کہا ں رکھوں ۔''اس تسبیح کا آپ بھی وِرْد رکھیں ، حتَّی الامکان طلوع صبحِ صادق کے ساتھ ہو ورنہ صبح سے پہلے جماعت قائم ہوجائے تو اس میں شریک ہوکر بعد کو عدد پورا کیجئے اور جس دن قبلِ نماز بھی نہ ہوسکے تو خیر طلوعِ شمس سے پہلے ۔

سونے کی بارش

حضرت ایوب علیہ السلامغسل فرمارہے تھے ، ربُّ العزت تبارَک وتعالیٰ نے سونے کا مینھ اُن پر برسایا ۔ آپ چادر مبارک پھیلا کر سونا اٹھانے لگے ۔ نداآئی : ''اے ایوب!(علیہ السلام) کیا ہم نے تمہیں اِس سے غنی نہ کیا ۔'' عرض کرتے ہیں : ''بے شک تُو نے غنی کیا ہے لیکن تیری برکت سے مجھے کسی وقت غنا نہیں۔''

(صحیح البخاری ، کتاب التوحید، باب قول اللہ یریدون ان یبدّلوا۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث ۷۴۹۳، ج۴، ص۵۷۲)


اہرامِ مصر کس نے بنائے؟

نوح
علیہ السلام کی اُمت پر جس روز عذابِ طوفان نازل ہوا ہے ، پہلی رجب تھی بارش بھی ہورہی تھی اور زمین سے بھی پانی ابل رہا تھا بحکمِ ربُّ العالمین نوح علیہ السلام نے ایک کشتی تیار فرمائی جو ۱۰ رجب کو تیرنے لگی ۔ اس کشتی پر ۸۰آدمی سوار تھے جس میں دو نبی تھے (حضرت آدم وحضرت نوح علیہما السلام ) حضرت نوح علیہ السلام نے اس کشتی پر حضرت آدم علیہ السلام کاتابو ت رکھ لیا تھا اور اس کے ایک جانب مرد اور دوسری جانب عورتوں کو بٹھایا تھا ۔ پانی اس پہاڑ سے جو سب سے بلند تھا ۳۰ہاتھ اونچا ہوگیا تھا دسویں محرم کو چھ ماہ کے بعد سفینہ مبارکہ جودی پہاڑ پر ٹھہرا ۔ سب لوگ پہاڑ سے اُترے اور پہلا شہر جو بسایا اس کا ''سُوْقُ الثَّمَانِین'' نام رکھا ۔ یہ بستی جبلِ نہاوند کے قریب متصلِ موصل واقع ہے ، اس طوفان میں دو عمارتیں مثل گنبد ومنارہ باقی رہ گئی تھیں جنہیں کچھ نقصان نہ پہنچا ۔ اُس وقت روئے زمین پر سوائے ان کے اور عمارت نہ تھی، امیر المؤمنین حضرت مولی علی ( کَرَّمَ اللہُ تَعَالیٰ وَجْہَہ، الْکَرِیْم)سے انہیں عمارتوں کی نسبت منقول ہے ''بُنِیَ الْھَرْمَانُ۔۔۔۔۔۔ اَلنَّسْرُفِی سَرْطَانَ ''یعنی دونوں عمارتیں اس وقت بنائی گئیں جب ستارہ نسر نے بر ج سر طان میں تحویل کی تھی۔نسر دو ستا رے ہیں: نسرِ واقع ونسرِ طائر اور جب مطلق بولتے ہیں تو اس سے نسرِ واقع مراد ہوتا ہے ۔ ان کے دروازے پر ایک گدھ کی تصویر ہے اور اسکے پنجہ میں گنگچہ ہے جس سے تاریخِ تعمیر کی طرف اشارہ ہے ۔ مطلب یہ کہ جب نسرِ واقع بر جِ سرطان میں آیا اس وقت یہ عمارت بنی جس کے حساب سے بارہ ہزار چھ سوچالیس سال ساڑھے آٹھ مہینے ہوتے ہیں کہ ستارہ چونسٹھ بر س قمری سات مہینے ستائیس دن میں ایک درجہ طے کرتا ہے اور اب بر جِ جدی کے سولھویں درجہ میں ہے تو جب سے چھ بر ج ساڑھے پند رہ درجے سے زائد طے کرگیا۔آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تخلیق سے بھی تقریباً پونے چھ ہزار بر س پہلے کے بنے ہوئے ہیں کہ ان کی آفرینش(یعنی تخلیق) کو سات ہزار بر س سے کچھ زائد ہوئے ۔ لاجَرَم (یعنی ضرور)یہ قومِ جنّ کی تعمیر ہے کہ پیدائشِ آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پہلے ساٹھ ہزار برس زمین پر رہ چکی ہے ۔

Advertisement

0 comments:

Post a Comment

 
Top