دنیا کی سب سے قیمتی گائے


یہ بہت ہی اہم اور نہایت ہی شاندار قرآنی واقعہ ہے۔ اور اسی واقعہ کی وجہ سے قرآن مجید کی اس سورة کا نام ''سورہ بقرہ'' (گائے والی سورة)رکھا گیا ہے۔
اس کا واقعہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک بہت ہی نیک اور صالح بزرگ تھے اور ان کا ایک ہی بچہ تھا جو نابالغ تھا۔ اور ان کے پاس فقط ایک گائے کی بچھیا تھی۔ ان بزرگ نے اپنی وفات کے قریب اس بچھیا کو جنگل میں لے جا کر ایک جھاڑی کے پاس یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ یااللہ (عزوجل)میں اس بچھیا کو اس وقت تک تیری امانت میں دیتا ہوں کہ میرا بچہ بالغ ہوجائے۔ اس کے بعد ان بزرگ کی وفات ہو گئی اور بچھیا چند دنوں میں بڑی ہو کر درمیانی عمر کی ہو گئی اور بچہ جوان ہو کر اپنی ماں کا بہت ہی فرمانبردار اور انتہائی نیکوکار ہوا۔ اس نے اپنی رات کو تین حصوں میں تقسیم کررکھا تھا۔ ایک حصہ میں سوتا تھا، اور ایک حصہ میں عبادت کرتا تھا،اور ایک حصہ میں اپنی ماں کی خدمت کرتا تھا۔ اور روزانہ صبح کو جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لاتا اور ان کو فروخت کر کے ایک تہائی رقم صدقہ کردیتا اور ایک تہائی اپنی ذات پر خرچ کرتا اور ایک تہائی رقم اپنی والدہ کو دے دیتا۔
ایک دن لڑکے کی ماں نے کہا کہ میرے پیارے بیٹے! تمہارے باپ نے میراث میں ایک بچھیا چھوڑی تھی جس کو انہوں نے فلاں جھاڑی کے پاس جنگل میں خدا (عزوجل)کی امانت میں سونپ دیا تھا۔ اب تم اس جھاڑی کے پاس جا کر یوں دعا مانگو کہ اے حضرت ابراہیم و حضرت اسمعٰیل و حضرت اسحٰق (علیہم السلام)کے خدا! تو میرے باپ کی سونپی ہوئی امانت
مجھے واپس دے دے اور اس بچھیا کی نشانی یہ ہے کہ وہ پیلے رنگ کی ہے۔ اور اس کی کھال اس طرح چمک رہی ہو گی کہ گویا سورج کی کرنیں اس میں سے نکل رہی ہیں۔ یہ سن کر لڑکا جنگل میں اس جھاڑی کے پاس گیا اور دعا مانگی تو فوراً ہی وہ گائے دوڑتی ہوئی آ کر اس کے پاس کھڑی ہوگئی اور یہ اس کو پکڑ کر گھر لایا تو اس کی ماں نے کہا۔ بیٹا تم اس گائے کو لے جا کر بازار میں تین دینار میں فروخت کرڈالو۔ لیکن کسی گاہک کو بغیر میرے مشورہ کے مت دینا۔ ان دنوں بازار میں گائے کی قیمت تین دینار ہی تھی۔ بازار میں ایک گاہک آیا جو درحقیقت فرشتہ تھا۔ اس نے کہا کہ میں گائے کی قیمت تین دینار سے زیادہ دوں گا مگر تم ماں سے مشورہ کئے بغیر گائے میرے ہاتھ فروخت کرڈالو۔ لڑکے نے کہا کہ تم خواہ کتنی بھی زیادہ قیمت دو مگر میں اپنی ماں سے مشورہ کئے بغیر ہرگز ہرگز اس گائے کو نہیں بیچوں گا۔ لڑکے نے ماں سے سارا ماجرا بیان کیا تو ماں نے کہا کہ یہ گاہک شاید کوئی فرشتہ ہو۔ تو اے بیٹا! تم اس سے مشورہ کرو کہ ہم اس گائے کو ابھی فروخت کریں یا نہ کریں۔ چنانچہ اس لڑکے نے بازار میں جب اس گاہک سے مشورہ کیا تو اس نے کہا کہ ابھی تم اس گائے کو نہ فروخت کرو۔ آئندہ اس گائے کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لوگ خریدیں گے تو تم اس گائے کے چمڑے میں سونابھر کر اس کی قیمت طلب کرنا تو وہ لوگ اتنی ہی قیمت دے کر خریدیں گے۔
چنانچہ چند ہی دنوں کے بعد بنی اسرائیل کے ایک بہت مالدار آدمی کو جس کا نام عامیل تھا۔ اس کے چچا کے دونوں لڑکوں نے اس کو قتل کردیا۔ اور اس کی لاش کو ایک ویرانے میں ڈال دیا۔ صبح کو قاتل کی تلاش شروع ہوئی مگر جب کوئی سراغ نہ ملا تو کچھ لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور قاتل کا پتا پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ تم لوگ ایک گائے ذبح کرو اور اس کی زبان یا دم کی ہڈی سے لاش کو مارو تو وہ زندہ ہو کر خود ہی اپنے قاتل کا نام بتا دے گا۔ یہ سن کر بنی اسرائیل نے گائے کے رنگ ،اس کی عمر وغیرہ کے بارے میں بحث و کریدشروع کردی۔ اور بالآخر جب وہ اچھی طرح سمجھ گئے کہ فلاں قسم کی گائے چاہے تو ایسی گائے کی تلاش شروع کردی یہاں تک کہ جب یہ لوگ اس لڑکے کی گائے کے پاس پہنچے تو ہو بہو یہ ایسی ہی گائے تھی جس کی ان لوگوں کو ضرورت تھی۔ چنانچہ ان لوگوں نے گائے کو اس کے چمڑے میں بھر کر سونا اس کی قیمت دے کر خریدا اور ذبح کرکے اس کی زبان یا دم کی ہڈی سے مقتول کی لاش کو مارا تو وہ زندہ ہو کر بول اٹھا کہ میرے قاتل میرے چچا کے دونوں لڑکے ہیں جنہوں نے میرے مال کے لالچ میں مجھ کو قتل کردیا ہے یہ بتا کر پھر وہ مر گیا۔ چنانچہ ان دونوں قاتلوں کو قصاص میں قتل کردیا گیا اور مرد صالح کا لڑکا جو اپنی ماں کا فرمانبردار تھا کثیر دولت سے مالا مال ہو گیا۔
 (تفسیر الصاوی،جلدنمبر 1صفحہ75پ1 البقرہ71)                        


ستر ہزار مردے زندہ ہو گئے 
 اس کا واقعہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل کی ایک جماعت جو حضرت حزقیل علیہ السلام کے شہر میں رہتی تھی، شہر میں طاعون کی وبا پھیل جانے سے ان لوگوں پر موت کا خوف سوار ہو گیا۔ اور یہ لوگ موت کے ڈر سے سب کے سب شہر چھوڑ کر ایک جنگل میں بھاگ گئے اور وہیں رہنے لگے تو اللہ تعالیٰ کو ان لوگوں کی یہ حرکت بہت زیادہ ناپسند ہوئی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایک عذاب کے فرشتہ کو اس جنگل میں بھیج دیا۔ جس نے ایک پہاڑ کی آڑ میں چھپ کر اور چیخ مار کر بلند آواز سے یہ کہہ دیا کہ ''موتوا''یعنی تم سب مرجاؤ اور اس مہیب اور بھیانک چیخ کو سن کر بغیر کسی بیماری کے بالکل اچانک یہ سب کے سب مر گئے جن کی تعداد ستر ہزار تھی۔ ان مردوں کی تعداد اس قدر زیادہ تھی کہ لوگ ان کے کفن و دفن کا کوئی انتظام نہیں کرسکے اور ان مردوں کی لاشیں کھلے میدان میں بے گور و کفن آٹھ دن تک پڑی پڑی سڑنے لگیں اور بے انتہا تعفن اور بدبو سے پورے جنگل بلکہ اس کے اطراف میں بدبو پیدا ہو گئی۔ کچھ لوگوں نے ان کی لاشوں پر رحم کھا کر چاروں طرف سے دیوار اٹھا دی تاکہ یہ لاشیں درندوں سے محفوظ رہیں۔ 

    کچھ دنوں کے بعد حضرت حزقیل علیہ السلام کا اس جنگل میں ان لاشوں کے پاس گزر ہوا تو اپنی قوم کے ستر ہزار انسانوں کی اس موتِ ناگہانی اور بے گور و کفن لاشوں کی فراوانی
دیکھ کر رنج و غم سے ان کا دل بھر گیا۔ آبدیدہ ہو گئے اور باری تعالیٰ کے دربار میں دکھ بھرے دل سے گڑگڑا کر دعا مانگنے لگے کہ یا اللہ یہ میری قوم کے افراد تھے جو اپنی نادانی سے یہ غلطی کر بیٹھے کہ موت کے ڈر سے شہر چھوڑ کر جنگل میں آگئے۔ یہ سب میرے شہر کے باشندے ہیں ان لوگوں سے مجھے انس تھا اور یہ لوگ میرے دکھ سکھ کے شریک تھے۔ افسوس کہ میری قوم ہلاک ہو گئی اور میں بالکل اکیلا رہ گیا۔ اے میرے رب یہ وہ قوم تھی جو تیری حمد کرتی تھی اور تیری توحید کا اعلان کرتی تھی اور تیری کبریائی کا خطبہ پڑھتی تھی۔

     آپ بڑے سوزِ دل کے ساتھ دعا میں مشغول تھے کہ اچانک آپ پر یہ وحی اتر پڑی کہ اے حزقیل (علیہ السلام)آپ ان بکھری ہوئی ہڈیوں سے فرما دیجئے کہ اے ہڈیو! بے شک اللہ تعالیٰ تم کو حکم فرماتا ہے کہ تم اکٹھا ہوجاؤ۔ یہ سن کر بکھری ہوئی ہڈیوں میں حرکت پیدا ہوئی اور ہر آدمی کی ہڈیاں جمع ہو کر ہڈیوں کے ڈھانچے بن گئے۔ پھر یہ وحی آئی کہ اے حزقیل (علیہ السلام)آپ فرما دیجئے کہ اے ہڈیو!تم کو اللہ کا یہ حکم ہے کہ تم گوشت پہن لو۔ یہ کلام سنتے ہی فوراً ہڈیوں کے ڈھانچوں پر گوشت پوست چڑھ گئے۔ پھر تیسری بار یہ وحی نازل ہوئی۔ اے حزقیل اب یہ کہہ دو کہ اے مردو! خدا کے حکم سے تم سب اٹھ کرکھڑے ہوجاؤ۔ چنانچہ آپ نے یہ فرما دیا تو آپ کی زبان سے یہ جملہ نکلتے ہی ستر ہزار لاشیں دم زدن میں ناگہاں یہ پڑھتے ہوئے کھڑی ہو گئیں کہ ''سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ۔ پھر یہ سب لوگ جنگل سے روانہ ہو کر اپنے شہر میں آ کر دوبارہ آباد ہو گئے۔ اور اپنی عمروں کی مدت بھر زندہ رہے لیکن ان لوگوں پر اس موت کا اتنا نشان باقی رہ گیا کہ ان کی اولاد کے جسموں سے سڑی ہوئی لاش کی بدبو برابر آتی رہی اور یہ لوگ جو کپڑا بھی پہنتے تھے وہ کفن کی صورت میں ہوجاتا تھا۔ اور قبر میں جس طرح کفن میلا ہوجاتا تھا ایسا ہی میلا پن ان کے کپڑوں پر نمودار ہوجاتا تھا۔ چنانچہ یہ
اثرات آج تک ان یہودیوں میں پائے جاتے ہیں جو ان لوگوں کی نسل سے باقی رہ گئے ہیں۔

          (تفسیر روح البیان،ج۱،ص۳۷۸،پ۲،البقرۃ: ۲۴۳)

0 comments:

Post a Comment

 
Top